امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے ۔ وہ فرماتی ہیں کہ سر کا ر ِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی خادم کو اپنے ہاتھ سے نہیں ما را، نہ کسی عورت کو مارا اور نہ کسی دوسرے کو اپنے ہا تھ سے ما را البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی راہ میں جہا د کرتے تھے ۔ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو چیزو ں میں سے کسی ایک چیز کو لینے کا اختیا ر دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسان کو اختیا ر کیا الا یہ کہ وہ گنا ہ ہو ۔ جو چیز گناہ ہو تی اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لو گو ں سے زیا دہ دور رہنے والے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوا ہ کوئی تکلیف پہنچا ئی گئی ہو کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہیں لیا الا یہ کہ اللہ کی حر متو ں کو توڑا گیا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی خاطر اس کا بدلہ لیا ہو ۔
طائف کے سر داروںکے جو ابات سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ غمگین ہوئے اور واپس ہونے کا ارا دہ فرمایا ۔ مگر ان لو گو ں نے پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ بخشا ۔ انہو ں نے بستی کے لڑکو ں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگا دیا ۔ وہ گا لیو ں اور پتھرو ں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھا کرتے رہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے اپنے کمبل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آڑ میں لینے کی کوشش کی ، مگر وہ آپ کو بچانے میں کامیا ب نہ ہوسکے او ر ان کے پتھرو ں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم لہولہان ہو گیا ۔ بستی سے کچھ دور جا کر عتبہ اور شیبہ پسران ربیعہ ، رﺅ سائے مکہ ، کا انگوروں کا باغ تھا ۔ یہا ں پہنچتے پہنچتے شام ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس با غ میں پناہ لی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زخموں سے چور تھے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہے تھے ۔ وہ دعا بھی عجیب تھی ۔ جن لو گو ں نے اتنی تکلیف د ی تھی چاہیے تو یہ تھا کہ ان کے لیے بد دعا کی جا تی اور ایسی بد دعا کی جا تی کہ ان کی نسلیں یا د کرتیں ۔ لیکن محدثین بتاتے ہیں کہ اس حال میں بھی رحمت مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے دشمنو ں کے لیے بددعا نکلتی ہے نہ اپنے مالک و مو لیٰ سے شکا یت کا ایک حرف زبان پر آتا ہے۔نہ اس ایمان و یقین میںکوئی تزلزل واقع ہو تا ہے ۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اٹھتے ہیں اور یہ فر یا د زبان پر جا ری ہو تی ہے ۔ ’ ’ یا الہٰی ! میں تجھ سے ہی فریا د کر تا ہو ں کہ میرے پا س نہ طا قت ہے، نہ حیلہ ، لو گو ں کے لیے میں کوئی چیز نہیں ۔ اے ارحم الرحمین ! تو کمزوروں عاجزو ں کا وا رث ، تو میرا بھی مالک و مولا ، تو مجھے کس کے حوالے کر تاہے ؟بیگانے غیر کے ،جو خشم ناکی و درشتی آئے ؟یا اس دشمن کے جسے تیری قدرت نے میرے حال پر قابو عطا کیا ؟ مگرمالک اگر تو مجھ پر نا خوش نہیں تو مجھے کسی با ت کی پروا نہیں ۔ تیری عا فیت کا دامن ہی میرے لیے کشادہ تر ہے۔ میں تیرے رخ انو ر کی ضیا ءمیں پنا ہ ما نگتا ہو ں ، جس سے تا ریکیا ں اور ظلمتیں مطلع انوار اور امور دنیا و آخرت خوش گوار ہو جا تے ہیں ۔ اس بات سے کہ تیرا غضب مجھ پر نازل ہو یا تیرا عتا ب مجھ پر آئے ، ( میری طر ف سے ) تسلیم و رضا تیرے لیے ہے ۔ جب تک تو را ضی نہ ہو جائے ، اور مو لا قوت و طا قت جو ہے سو پس وہ تیر ی ذات کی“ خداوند قدوس نے اپنے بندئہ حبیب کی پکا ر کو سنااور
فر مایا : ﴾ فَاصبِر کَمَا صَبَرَاُولُوا العَزمِ مِنَ الرُّسُلِ ﴿ ترجمہ ” صبر کر جیسے پہلے صاحب عزیمت رسولوں نے صبر کیا “(سورئہ احقاف آیت نمبر 35 )
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 449
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں